پٹنہ۔ بہار کے کئی شہروں میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کے پیچھے بی جے پی لیڈروں کے ہاتھ ہونے کے الزامات لگے ہیں۔ اس کی وجہ سے نتیش حکومت کو بھی کٹگہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ اتحادی حکومت چلانے کی مجبوری کی وجہ سے وہ ان واقعات پر سختی نہیں دکھا پا رہے ہیں۔ اب اعداد و شمار بھی اس بات کی تصدیق کرنے لگے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، اعداد و شمار اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ بہار میں جب سے بی جے پی- جے ڈی یو کی نئی حکومت بنی ہے، ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ جولائی 2017 میں بی جے پی-جے ڈی یو والی اتحادی حکومت کے قیام کے بعد اب تک 200 فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے 67 معاملات صرف اس سال کے ہیں۔
اس سے پہلے، گزشتہ پانچ سالوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اتنے زیادہ نہیں دیکھے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2012
میں فرقہ وارانہ تشدد کے صرف 50 واقعات سامنے آئے، 2013 میں 112 معاملات، 2014 میں 110، 2015 میں 155 اور دو ہزار سولہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے 230 معاملے درج کئے گئے۔ سال 2017 میں فرقہ وارانہ تشدد کے 270 معاملات سامنے آئے۔ یہ حالیہ مدت میں سب سے بڑے اعداد وشمار ہیں۔
اس سال کے 67 معاملوں میں 21 صرف جنوری کے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کے 13 معاملے فروری مہینہ میں جبکہ 30 مارچ مہینہ میں سامنے آئے ہیں۔ مارچ مہینے کے فرقہ وارانہ تشدد کے زیادہ تر معاملات مسلم علاقوں سے ہندو جلوس نکالے جانے کو لے کر سامنے آئے ہیں۔ بہار کے ارریہ میں آر جے ڈی کی جیت کے بعد پیدا ہوئے تنازعہ نے بھی کشیدگی کو ہوا دی۔ الزام لگایا گیا تھا کہ آر جے ڈی کی جیت کے بعد بعض مسلم نوجوانوں نے ہندوستان مخالف نعرے لگائے تھے۔ اس سلسلے میں ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا لیکن الزامات کی تصدیق نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھاگلپور، مونگیر، اورنگ آباد، سمستی پور، شیخ پورہ، نوادہ اور نالندہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سامنے آئے۔