نئی دہلی" 21اگست (ایجنسی) پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری تقریب میں شرکت اور وہاں کے آرمی چیف قمر جاوید باجوا سے گلے ملنے سے تنازعات میں آئے پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا یہ دورہ سیاسی نہیں تھا اور وزیر اعظم نریندر مودی اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی بھی پہلے ایسا کرچکے ہیں۔
اسلام آباد میں مسٹر خان کی حلف برداری تقریب میں پاکستان کے آرمی چیف باجوا سے گلے ملنے پر بھارتیہ جنتا پارٹی ہی نہیں بلکہ پنجاب کے وزیر اعلی امریندر سنگھ نے بھی ناراضگی ظاہر کی ہے۔
اس تنازعہ پر مسٹر سدھو نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ مسٹر واجپئی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرگل جنگ کے بعد بھی امن کی کوشش کرتے ہوئے مسٹر واجپئی کاروان امن بس لے کر لاہور گئے تھے۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی تھی ۔ یہی نہیں مسٹر مودی نے بھی اپنی حلف برداری تقریب میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو مدعو کیا تھا اور بغیر کسی دعوت نامہ کے مسٹر شریف کے خاندان کی ذاتی تقریب میں شامل ہونے کے لئے افغانستان سے لوٹتے ہوئے اچانک لاہور چلے گئے تھے۔
مسٹر سدھو نے کہا"میرا پاکستان کا مختصر دورہ بحث کا
موضوع بنا ہوا ہے۔ میرا دورہ کسی بھی طرح سے سیاسی نہیں تھا۔ ایک دوست کا محبت بھرا دعوت نامہ ملنے پر میں وہاں گیا تھا۔"
پاکستانی آرمی چیف کے ساتھ گلے ملنے پر مسٹر سدھو نے کہا کہ یہ ملاقات مسٹر خان کی حلف برداری تقریب میں ہوئی۔ حلف برداری تقریب میں پہلی قطار میں بیٹھے دیکھ کر مسٹر باجوا گرم جوشی کے ساتھ ان سے ملے۔ انہوں نے ملاقات میں کہا کہ گرونانک صاحب کے پچاسویں پرکاش دیوس کے موقع پرہندوستان کے ڈیرہ بابا نانک سے پاکستان سے ڈھائی کلومیٹر دور واقع کرتار پور صاحب کے درشن کے لئے عقیدت مندوں کو بلا روک ٹوٹ درشن کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مسٹر سدھو نے کہا کہ " مسٹر باجوا نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں اور ان کی یہ باتیں ان کے لئے جذباتی تھیں۔" مسٹر سدھو نے کہا کہ " مسٹر خان کی حلف برداری تقریب کے بعد مسٹر باجوا سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔ وہ چند لمحے تھے " شاید ایک منٹ ہو" اس کے سلسلے میں مجھ پر کئی الزامات لگائے گئے ہیں اور مجھے اس بات کا افسوس بھی ہے او ردکھ بھی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ" مجھے دس مرتبہ دعوت ملی اور س کے بعد میں نے حکومت ہند سے اجازت مانگی۔ مجھے اجازت نہیں ملی اور میں انتظار کرتا رہا ۔ دو دن بعد حکومت پاکستان نے ویزا دیا۔ سشما سوراج جی نے رات میں خود فون کرکے مجھے آگاہ کیا اور اس کے بعد مجھے اجازت دی گئی ۔"
مسٹر سدھو نے کہا کہ مسٹر سنگھ کے ساتھ ہی کانگریس کے لئی اور وزیروں نے اس پر بات چیت کی ہے۔ ملک میں جمہوریت ہے اور ہر کسی کو اپنے خیالات ظاہر کرنے کی آزادی ہے۔