احمد آباد۔ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے لیڈر پروین توگڑیا نے کل تقریبا دس گھنٹے تک اپنی پراسرار گمشدگی کے بارے میں آج انکشاف کرتے ہوئے دعوی کیا کہ وہ فرضی پولیس انکاؤنٹر میں ان کے قتل کے اندیشوں کے سبب خاموشی سے ہوائی اڈے سے راجستھان جانے کے لئے نکلے تھے اور اسی اثنا میں وہ طبیعت بگڑنے سے بیہوش ہو گئے تھے۔ توگڑیا آج یہاں ایک پرائیویٹ اسپتال میں پریس کانفرنس کے دوران کئی بار جذباتی بھی ہو ئے اور ان کے آنسو نکلنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ وقت آنے پر ثبوت کے ساتھ اس بات کا انکشاف کریں گے کہ کون ان کی آواز دبانے اور انہیں جیل بھیجنے کی سازشیں کر رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ ان کے خلاف راجستھان پولیس کی وارنٹ کی معلومات وہاں کے وزیر اعلی یا وزیر داخلہ کو کیوں نہیں تھی۔
توگڑیا کے خلاف راجستھان کے سوائی مادھوپور ضلع کے گنگاپور کی ایک عدالت نے تقریبا ایک دہائی پرانے حکم کی خلاف ورزی کے ایک معاملہ میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا جس کو لے کر وهاں کی پولیس کل یہاں ان کی رہائش گاہ پر آئی تھی۔ لیکن ان کےنہیں ملنے پر پولیس واپس چلی گئی تھی۔ تقریبا اسی وقت دن کے پونے گیارہ بجے سے وہ لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس کو لے کر وی ایچ پی نے خاصا ہنگامہ کیا تھا۔ پولیس کی کرائم برانچ نے انہیں تلاش کرنے کے لئے ایک خصوصی ٹيم تشکیل دی تھی۔ بعد میں رات نو بج کر 20 منٹ پر وہ بیہوشی کی حالت میں شہر کے كوترپور علاقے سے ملے اور انہیں شاهي باغ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کے خون میں شکر کم ہونے سے وہ بیہوش ہوگئے تھے۔
توگڑیا نے صحافیوں سے کہا کہ انہیں کل صبح ایک کارکن نے بتایا کہ گجرات اور راجستھان پولیس ان کا انکاؤنٹر کر سکتی ہے۔ اس کے بعد جب انہیں پتہ چلا کہ پولیس آ رہی ہے تو وہ اپنی زیڈ پلس سیکورٹی کے ایک گارڈ کو بتا کر دفتر سے ایک کارکن کے ساتھ ان کے گھر پہنچے۔ انہوں نے راستہ میں راجستھان کے وزیر داخلہ اور وزیر اعلی سے پتہ کرایا تو انہیں ان کے وارنٹ کا پتہ نہیں تھا۔ اس
کے بعد انہوں نے اپنے لوکیشن کو چھپانے کے لئے تمام فون سوئچ آف کر دئیے۔ بعد میں انہوں نے اپنے ایک کارکن کے فون سے وکلا سے بات کی۔ انکاؤنٹر کے اندیشہ اور قانون پر عمل کے لئے وکلا کے مشورہ پر انہوں نے خاموشی سے راجستھان کے جے پور جا کر عدالت میں وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے یا خودسپردگی کا منصوبہ بنایا اور اکیلے ہی شال اوڑھ کر آٹو رکشہ میں بیٹھ کر ہوائی اڈے کے لئے نکلے لیکن پسینہ اور چکر آنے کی وجہ سے انہوں نے آٹو رکشہ سے انہیں باپونگر کے ایک اسپتال لے جانے کو کہا اور پھر بے ہوش ہو گئے۔ اس کے بعد جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے خود کو ایک اور اسپتال میں پایا۔
وی ایچ پی لیڈر نے کہا کہ انہیں گجرات یا راجستھان پولیس سے کوئی شکایت نہیں لیکن انہیں سیاسی دباؤ میں کام نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے جذباتی ہوتے ہوئے ان کی گمشدگی کے معاملہ کی تحقیقات کر رہی احمدآباد پولیس کی کرائم برانچ سے ان کی رہائش گاہ کی تحقیقات نہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی آواز کو اعلی سطح سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مرکزی خفیہ بیورو نے ان کی طرف سے غریبوں کی خدمات کے لئے ملک بھر میں تیار 10 ہزار ڈاکٹروں کو دھمکی دینا شروع کیا ہے۔ میں نے اس بارے میں مرکزی حکومت کو خط بھی لکھا۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ احمد آباد میں بھی گزشتہ دنوں جب ان کے خلاف وارنٹ نکلا تو یہاں کے وزیر اعلی یا وزیر داخلہ کو اس کی معلومات نہیں تھی۔ ان کے خلاف چھوٹے چھوٹے اور برسوں پرانے ایسے معاملے ہیں جن کے بارے میں انہیں یاد بھی نہیں ہے، میں وارنٹ جاری کئے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی خوف نہیں ہے اور وہ رام مندر، ہندوؤں، نوجوانوں، کسانوں وغیرہ کے بارے میں آواز اٹھاتے رہیں گے۔
انہوں نے اس پورے واقعہ کو لے کر وی ایچ پی کارکنوں سے امن وامان برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ ڈاکٹروں کی اجازت ملنے پر وہ راجستھان کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ پانچ جنوری کو یہاں 21 سال پرانے ایک معاملے میں اپنے خلاف جاری وارنٹ منسوخ کرانے کے لئے عدالت میں پیشی کے بعد بھی انہوں نے اسے ان کی آواز دبانے کی سازش قرار دیا تھا۔