نئی دہلی، 19جنوری (یو این آئی) موجودہ حالات پیش آنے والے فقہی مسائل کے حل میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے نمایاں کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہاکہ جدید فقہی مسائل کے حل میں فقہ اکیڈمی نے بے مثال نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بات آج یہاں صحافیوں کے ساتھ نشست میں ’اسلامک فقہ اکیڈمی آف انڈیا: آپ کے روبرو‘ کے تحت ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ جدید فقہی مسائل میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس میں فقہ اکیڈمی نے ماہرین علمائے اور مفتیان کرام کو ساتھ لیکر اس کو حل نہ کیا ہو اور اس پر واضح رائے ظاہر نہ کی ہو۔ انہوں نے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ ملک و بیرون فقہ اکیڈمی کے فیصلے کو عدالت نے تسلیم کیاہے اور فقہ اکیڈمی کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسلام اس بات پر توجہ دیتا ہے کہ سب لوگ جہاد میں نہ جائیں بلکہ ایسا گروپ بھی ہو جو تفقہ فی الدین بارے میں غور و فکر کرے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ تفقہ کا مطلب صرف نماز روز وغیرہ نہیں ہے بلکہ وہ عائلی مسائل ہیں جس میں وقت کے ساتھ تبدیلی آجاتی ہے اور مسئلے کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ اس پر ادراک کرکے آنے والے جدید
مسائل کا حل پیش کرے۔
انہوں نے فقہ اکیڈمی کے کام کے بارے بات کرتے ہوئے کہاکہ اکیڈمی ملک و بیرون ملک کے ماہرین علماء کرام کو جمع کرکے اور تدبرو تفکر کرکے اس کا حل نکالتی ہے۔ انہوں نے خواتین کے تعلق سے اکیڈمی کے کاموں کے بارے بتاتے ہوئے کہاکہ خواتین کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے ان کے مختلف امور کو موضوع بحث بنایا تاکہ خواتین پر ہونے والے مظالم کا سدباب کیا جاسکے۔ انہوں نے کہاکہ جیسے اشتراط فی النکاح ہے جس میں خواتین کئی طرح کے اختیارات دئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عام طور پر خواتین کی ملازمت پسند نہیں کیا جاتا بعض دفعہ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ خواتین کو ملازمت کرنا ضروری ہوتا ہے، اکیڈمی اس موضوع پر سیمنار کرکے اس سلسلے میں رہنمائی کی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ اکیڈمی نے مسلم غیر مسلم تعلقات پر شریعت کی رائے کو واضح کیا ہے تاکہ ہندوستان کے تناظر میں مسلمانوں کی رہنمائی ہوسکے۔ اسی کے ساتھ اکیڈمی نے بینک کاری اور اسلامی بینکنگ کے بارے میں اسلامی ممالک سے بہتر کام کیا ہے۔ بینکنگ کے بارے میں مکمل رہنمائی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اکیڈمی کی خوبی ہے کہ فقہ اکیڈمی میں تمام مسلک کے علماء شامل ہیں جن میں اہل حدیث، شوافع، بریلوی اور دیوبندی علماء شامل ہیں۔