نئی دہلی/27ستمبر(ایجنسی) مرکزی حکومت تین طلاق سے متعلق آرڈیننس چور دروازہ سے لائی ہے تاکہ اصل مسئلہ سے توجہ ہٹائی جائے۔ بورڈ اس آرڈیننس کی مذمت کرتا ہے۔ اس طرح کا قانون مسلم عورتوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ ان باتوں کا اظہار مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر رکن مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کیا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ طلاق ثلاثہ کا بل ہی صحیح نہیں تھا جو شریعت میں مداخلت تھی لیکن اب اس آرڈیننس کے ذریعہ قانون سازی کرنا ملک کی جمہوریت کا قتل اور اپنی غلطی کا اصرار کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کو علمااوراسلامی قانون کے ماہرین سے یہ جاننا چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں شریعت کیا کہتی ہے ۔ اس کے مطابق ہی قانون بنانا چاہئے تھا ، لیکن جن لوگوں کے لئے حکومت قانون بنانا چاہتی ہے ان سے کوئی مشورہ نہیں لیاگیا ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ یا کسی اور تنظیم سے کوئی مشورہ
نہیں لیاگیا جو مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کیلئے قانون بنایاجارہا ہے ، ان سے مشورہ نہ کریں ۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے راجیہ سبھا میں مطالبہ کیاتھا کہ طلاق ثلاثہ بل کو سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کیاجائے تاکہ اس کمیونٹی کو اپنا موقف سمجھانے کا موقع مل سکے ۔ طلاق کو مشکل بنادیاگیا تو اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں میں بھی ایسی عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی جن کو مرد طلاق نہیں دے گااور بیوی کو پالنے کے لئے تیاربھی نہیں ہوگا۔حکومت کا یہ آرڈیننس مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔1937میں یہ بات کہی گئی تھی کہ کسی عائلی معاملہ کے فریق دونوں مسلمان ہوں تو شریعت کے قانون کے مطابق فیصلہ کیاجائے ۔ جب دستوربنا تو اس کی وضاحت بھی کی گی کہ ایسے قانون جو دستور سے نہ ٹکرائیں و ہ باقی رہیں گے ۔ اس طرح طلاق کے مسئلہ پر شریعت کا قانون ہی نافذ رہنے کی بات کہی گئی تھی ۔ حکومت نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ مسلمان طلاق ثلاثہ پر کیا چاہتے ہیں۔