نئی دہلی، 30اگست (یو این آئی) ملک کے حالات خاص طور پر ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ پر تشویش کااظہا ر کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حالات کے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کوشکست سے دوچارکرکے کامیابی اورکامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدود اور مشکل سے مشکل تربنادی گئی ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیداہوئی اوراس کے کیا اسباب
ہوسکتے ہیں؟ اس پرہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خودجان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی،کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تووہ مدارس کیوں قائم کرتے؟
مولانا مدنی نے کہاکہ ہم ایک بارپھراپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اور خاص کر بچیاں اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ارتداد کی مہم ہے جس کی وجہ سے مسلم لڑکیوں کے ارتداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اوراس حوالے سے منظم شکل میں فرقہ پرست عناصر غیر مسلم نوجوانوں کو مسلم بچیوں کو ورغلانے کیلئے نہ صرف ہر طرح کی مددفراہم کررہے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے۔اس صورتحال پر اگر بروقت قدغن نہ لگائی گئی تو آنے والے دن انتہائی خطرناک ہوں گے۔