نئی دہلی، 9 /مارچ (یو این آئی) ملک کے موجودہ حالات، قانون وانتظام کی بد تر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی حالات پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہندکے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے جمعیۃ کے تعلیمی وظائف کی رقم پچاس لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑ روپے کردی یہ اعلان انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے مجلس عاملہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق مرکزی مجلس عاملہ نے ریاستی جمعیتوں کی مجلس عاملہ کی سفارشات کی بنیاد پر آئندہ میعادکی صدارت کے لئے مولانا ارشد مدنی کے نام کا اعلان کردیا۔
مجلس عاملہ سے خطاب میں مولانا ارشدمدنی نے ملک کے موجودہ حالات میں قانون وانتظام کی بد تر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی تناسب پر گہری تشویش کا اظہارکیا اور اس کے لئے وظائف کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی اورکہا کہ ہماری اس ادنیٰ سی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حدتک سنور سکتا ہے جنہیں اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کوشکست سے دوچارکرکے کامیابی اورکامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدود اور مشکل سے مشکل تربنادی گئی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں، مولانامدنی نے سوال کیا
کہ یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیداہوئی اوراس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پرہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خودجان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی،کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تووہ مدارس کیوں قائم کرتے۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد اقتدارمیں آنے والی تمام سرکاروں نے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کاشکار بنائے رکھا انہوں نے شاید یہ بات محسوس کرلی تھی کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تو اپنی صلاحیتوں اورلیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائزہوجائیں گے، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور روکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوششیں ہوتی رہیں، جس کے نتیجہ میں مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہوگئے۔
مولانا مدنی نے کہاکہ ہم ایک بارپھراپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں، اور کارزارحیات میں کامیابی کیلئے ہماری نوجوان نسل تعلیم کواپنا اصل ہتھیاربنالے۔ ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کرسکیں۔ انہوں نے قوم کے بااثرافرادسے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ ایسے اسکول قائم کریں، جہاں بچے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں، ہر شہر میں چند مسلمان مل کر کالج قائم کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب ہندوستانی مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں، آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگاکہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے۔