نئی دہلی، 9 اکتوبر (یو این آئی) ہمہ جہت صلاحیت کے مالک گرو دت کا شمار ہندوستان کے عظیم اداکار، ہدایتکار اور فلمساز کے طور پر ہوتا تھا۔
ان کا تعلق منگلور کے ایک سرسوت برھمن خاندان سے تھا۔
ان کی پیدائش 9 جولائی 1925 کو بنگلور میں ہوئی تھی تاہم تعلیم کلکتہ میں حاصل کی۔
گرودت بیس برس کی عمر میں ایک اسسٹنٹ ڈائرکٹر کے طور پر فلمی دنیا میں داخل ہو چکے تھے۔
جہاں انہیں گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
اکثر لوگ فلم ’باز‘ کوگرو دت کی پہلی فلم سمجھتے ہیں لیکن گرو دت ’باز‘ سے پہلے تین فلموں سے وابستہ رہے۔
یہ فلمیں ’لاکھا رانی‘ (1945ء)،’ ہم ایک ہی‘ (1946ء) اور’گرلز اسکول‘(1949ء) تھیں۔
گرو دت نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز ایک ڈانس ڈائریکٹر کی حیثیت سے مشہور پربھات اسٹوڈیو میں فلم لاکھا رانی سے کیا۔
اُنہوں نے 1942ء سے 1944ء تک
اُستاد اُدھے شنکر کی المورا ڈانس اکیڈمی میں تربیت حاصل کی تھی۔
بطور اداکار انہوں نے کُل 17 فلموں میں کام کیا جن میں سے 8 فلمیں انہوں نے خود ڈائریکٹ کیں اور یہی فلمیں اُن کی سب سے بہترین فِلمیں بھی ثابت ہوئیں۔
ان کی مشہور فلموں میں ’صاحب، بیوی اور غلام‘ اور ’چودہویں کا چاند‘ شامل ہیں جو انہوں نے خود ڈائریکٹ نہیں کیں۔
اگر گرو دت کی چار فلموں کو بے مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ان میں دو مزاحیہ اور دو سنجیدہ فلمیں شامل ہیں۔
گرو دت کے کام کرنے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ پہلے ایک کامیڈی بناتے اور اُس کے فوراً بعد ایک سنجیدہ فلم بنانا شروع کر دیتے۔
ایک طرف جہاں محبوب خان، بمل رائے اورراج کپور کی فِلموں نے دیوداس کے امیج کی صورت میں اس دور کے ہندوستانی نوجوان کی ایک الگ اور نئی تصویر پیش کی تو وہیں دوسری جانب گُرو دت نے اُس مایوس سنجیدہ ہیرو کوایک ذاتی اور سیاسی پہچان دی۔