پریس نوٹ:
حیدرآباد، 9 جنوری (پریس نوٹ)مسلم طلبہ میں اسکولی سطح پر ڈراپ آﺅٹ کی شرح نہایت تشویشناک ہے اور جب تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ملک کی ترقی کے ثمرات سے مسلم صحیح طور پر استفادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر امیتابھ کنڈو نے کیا۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ستائیسویں یومِ تاسیس کے موقع پر بطور مہمانِ خصوصی لیکچر دے رہے تھے۔ پروفیسر امیتابھ کنڈو کے مطابق سال 2050 تک ہندوستان کی معیشت کا 10 ٹریلین کی سطح تک پہنچنا بحر حال طئے ہے۔ لیکن پسماندہ طبقات اور مسلمانوں میں تعلیم کے حوالے سے اگر اقدامات نہیں کیے جاتے تو یہ تشویشناک امر ہوگا۔ وہ ”ہندوستان جامع اور پائیدار ترقی کی جانب، مواقع اور چیلنجز“ کے موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے ۔ جناب ممتاز علی (سری ایم)، چانسلر یونیورسٹی نے یومِ تاسیس کے اس پروگرام کی صدارت کی۔ ابتداءمیں پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے افتتاحی خطاب کیا۔
پروفیسر امیتابھ کنڈو نے اعداد و شمار کی روشنی میں واضح کیا کہ مسلم طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پیش رفت کے لیے سرکاری وغیر سرکاری ہر دو سطحوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مسلم طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ڈراپ آﺅٹ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے پاور پوائنٹ پرزنٹیشن میں ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہندوستانی معیشت سال 2028 تک دنیا کی دوسری سب سے تیز رفتار معیشت بن جائے گی۔ کویڈ کے دور میں ہندوستانیوں کا ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کا اشاریہ متاثر ہوا۔ مگر اس ہدف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ تعلیم، آمدنی اور صحت کے میدان میں عدم مساوات ہیں۔ انہوں نے اپنے مطالعے کی بنیاد پر بتایا کہ ملک بھر میں دیگر خواتین کے مقابل مسلمان خواتین 2 سال زیادہ باحیات رہتی ہے اور مسلمانوں میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات بھی کم ہیں۔
پروگرام کے آغاز میں یونیورسٹی کا سلور جوبلی ترانہ پیش کیا گیا۔ یہ ترانہ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے لکھا ہے۔ جبکہ مشہور موسیقار وکیل جو راجستھان گھرانے سے
تعلق رکھتے ہیں نے اسے کمپوز کیا اور اپنی آواز دی ہے۔
جناب ممتاز علی، چانسلر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ انسان چاہے جتنی بھی اقتصادی ترقی کرلے اگر اس میں انسانیت، بھائی چارگی جیسے اقدار نہ ہوں تو یہ سب بے فیض ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”مذہب آپ کا اپنا ہے۔ اس پر آپ قائم رہیں لیکن دوسروں کے معاملے میں مداخلت نہ کریں۔ ملک ہم سب کا ہے۔ اس کی ترقی کے لیے سب مل کر جستجو کریں۔“ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مانو کے اگلے جلسہ ¿ تقسیم اسناد میں صدر جمہوریہ ¿ محترمہ ہند دروپدی مرمو کو مدعو کیا جائے گا۔
پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے اپنے افتتاحی خطاب میں اعلان کیا کہ اردو یونیورسٹی میں جلد ہی ایک نیا اسکول آف لاءقائم ہوگا اور جس میں انٹٹیگریٹیڈ کورس بی اے، ایل ایل بی کا آغاز کیا جائے گا۔ انہوں نے یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس و آئی ٹی کو موصول ہوئے 95 کروڑ روپئے کے پراجیکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے جناب ممتاز علی (سری ایم)، چانسلر کا تعارف پیش کیا۔ پروگرام کے آغاز میں پروفیسر شگفتہ شاہین، او ایس ڈی I نے خیر مقدمی کلمات ادا کیے اور پروفیسر امیتابھ کنڈو کا تعارف بھی پیش کیا۔
یومِ تاسیس کی مناسبت سے یونیورسٹی سے سبکدوش ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے اراکین کو تہنیت پیش کی گئی۔ ان میں پروفیسر سید شاہ محمد مظہر الدین فاروقی، پروفیسر آمنہ کشور، پروفیسر محمد نسیم الدین فریس، پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پروفیسر تحسین بلگرامی، جناب شیخ محمد، محترمہ ملکہ اور ڈاکٹر پی ایس منور حسین خان شامل تھے۔ پروفیسر عبدالسمیع صدیقی، ڈائرکٹر سی پی ڈی یو ایم ٹی نے کارروائی چلائی۔ ڈاکٹر محمد مصطفی علی سروری، پی آر او انچارج نے شکریہ کے فرائض انجام دیئے۔ جناب معراج احمد، کلچرل کوآرڈینیٹر کی نگرانی میں طلبہ نے قومی ترانہ پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد عبدالعلیم، گیسٹ فیکلٹی، اسلامک اسٹڈیز کی قرأت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ جناب رضوان احمد کی نگرانی میں آئی ایم سی ٹیم نے پروگرام کو یوٹیوب پر لائیو ویب کاسٹ کیا۔