کٹیہار، یکم مارچ (یواین آئی)اردو زبان کے فروغ اور نشوونما میں میڈیا کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے اکٹر انور ایرج، صدر شعبہ اردو ڈی ایس کالج کٹیہار نے کہا کہ میڈیا کی اردو خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتاہے یہ بات انہوں نے مشن آف ہیومن ڈیولپمنٹ اور ڈی ایس کالج کٹیہار کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے تعاون سے ”اردو کے فروغ میں میڈیا کی خدمات‘ کے موضوع پر قومی سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے ساتھ ہی استقبالیہ خطاب میں میڈیا اور اردو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے صرف سماجی خدمات ہی انجام نہیں دیا ہے بلکہ زبان کو سینچا اور سنوار بھی ہے۔
مہمان ذی وقار سابق وزیر تعلیم حکومت بہار، ڈاکٹر رام پرکاش مہتو نے کہا کہ اردو اور ہندی کے درمیان لاکھ کوئی خلیج پیدا کرے، تاہم اردو اور ہندی کے درمیان ایک تہذیبی رشتہ ہمیشہ برقرار رہے گا۔ افتتاحی نشست کے صدر اور ڈی ایس کالج کے پرنسل سی بی ایل داس نے کہا کہ ہندی میڈیا بھی زبان میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے اردو کا سہارا لے رہا ہے۔ مہمان اعزازی ڈاکٹر غازی شارق احمد نے اردو کی تاریخ، میڈیا اور اردو پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بنیادی کام اردو رسم الخط کا فروغ ہے۔
پورنیہ یونیورسٹی ٹیچرس یونین کے جنرل سکریٹری
پروفیسر بی کے اوجھا نے کہا کہ اردو اور ہندی دونوں کو مضبوط ہونا ضروری ہے، تاکہ دونوں زبان ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاسکے۔ جب کہ فکشن نگار اور ناقد سلمان عبدالصمد نے کہا کہ ہندوستان میں میڈیا یعنی ریڈیو اور فلم سے اردو کا ازلی رشتہ ہے۔ گویا اردو اور ذرائع ابلاغ کے درمیان خادم ومخدوم کا رشتہ ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ آج صحافت میں زبان وبیان کی غلطیاں اس لیے بھی نظر آتی ہیں کہ کسی حد تک صحافت سے ادیبوں کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے۔تکنیکی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر احمد حسن دانش نے کی اور ڈاکٹر عبدالطیف حیدری، احسان قاسمی، پروفیسر رفیع حیدرانجم، جناب رضی احمد تنہا، ڈاکٹر قسیم اختر،ڈ اکٹر تنزیل اطہر، ڈاکٹر مسرو ر حیدری، ڈاکٹر مجاہد حسین، عزیق الرحمن، کلام اجنبی، ثاقب کلیم وغیرہ نے اپنے مقالات پیش کیے۔اس موقع پر دوکتابوں ”دشت جنوں طلب: احسان قاسمی“، ”تنقیدی زاویے: مرحوم سکندر احمد“ کی رسم رونمائی کی گئی۔ ساتھ ہی کے بی سی نیوز کے ڈائرکٹر جناب للت اگروال کو ”مین آف دی میڈیا“ اوردیپ انگلش اسکول کے ریحان رضا کی خدمت میں ”ڈاکٹر ذاکر حسین ایوار ڈ“ پیش کیا گیا۔اس پروگرم میں خصوصی طور پر مرشد رضا، نورالدین ثانی، مسفرہ خاتون، انجمن آرا، صبیحہ غنی، سمی نایاب، زرقا فاطمی وغیرہ کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں ادب دوست موجود تھے۔