: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
: سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
بڑا مہربان نہایت رحم والا
انصاف کے دن کا حاکم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے تک قبول فرماتا ہیں (چنانچہ بندے کو مایوس نہ ہونا چاہئے)۔ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ ترمذی شریف)
اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر شیخ عظیم الدین کا یومِ اساتذہ لیکچر ۔ پروفیسر عین الحسن اور پروفیسر محمود صدیقی کی بھی مخاطبت حیدرآباد، 6 ستمبر (پریس نوٹ) ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن نے کہا تھا کہ مذہب لوگوں کو آپس میں جوڑنے والی قوت ہوتی ہے۔ مولانا ابوالکلام کا بھی مذہب کے متعلق یہی قول ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن اور مولانا ابوالکلام آزاد دونوں حسن اتفاق سے ایک ہی سال 1888 میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و علم کے میدان میں دونوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ مولانا آزاد نے مسلمانوں کو قومی دھارے سے جوڑا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ملک آزاد ہونے کے بعد انہیں پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ مولانا آزاد کے نام پر اُردو یونیورسٹی کا قیام ہمارے لیے اور اردو سماج کے لیے ایک اعزاز ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن نے بھی تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ہندو فلسفہ کا گہرا مطالعہ کیا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور پہلے نائب صدر جمہوریہ پھر اور صدر جمہوریہ بنے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر شیخ عظیم الدین، سابق ڈین (ایجوکیشن)، انٹیگرل یونیورسٹی، لکھنو ¿ ، نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ”معاشرے میں تعلیم اور استاد کا کردار“ کے زیر عنوان آج یومِ اساتذہ آن لائن لیکچر دیتے ہوئے کیا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ پروفیسر عظیم نے مولانا آزاد یونیورسٹی کے اپنے دورے کا ذکر کیا اور کہا کہ مانو کے شعبے نہایت ہی کارکرد اور فعال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالات کیسے بھی ہوجائیں لیکن اگر اساتذہ بہتر طور پر کام کرتے رہے تو حالات بہتر ہوجائیں گے۔ انہوں نے مختلف ماہرین کے اقوال کے ذریعہ تعلیم کی تعریف پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ معمار قوم ہوتے ہیں ۔ آج کے اساتذہ اس منصب پر قائم رہنے کے لیے محنت کریں۔ قرآن کی ابتداءہی تعلیم پر توجہ دلاکر ہوتی ہے۔ لیکن تعلیم صرف ڈگریوں کا حصول نہ ہو بلکہ اس سے لوگوں کو فائدہ پہچانے کی کوشش ہو۔ حضور صلعم نے خود کو معلم قرار دیا ہے۔ محمد ﷺ کی اخلاقی تعلیمات سب سے بہترین ہیں۔ ان تعلیمات میں سلام کرنا، کھانا کھلانا، مصافحہ کرنا وغیرہ یہ سب بہترین اخلاق کا حصہ ہیں۔ انہوں نے تعلیم پر رابندرناتھ ٹیگور کی نظم بھی پیش کی اوراستاد اور شاگرد کے رشتے کی کئی مثالیں پیش کیں۔ پروفیسر سید عین الحسن نے صدارتی خطاب کی ابتداءاس حدیث سے کی کہ ہر مرد و عورت پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالب علم اپنے استاد کا مشاہدہ کرتا
ہے اور اس سے بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔ اس لیے استاد کو خود کو اس لائق بنانا چاہیے۔ اسے ہمیشہ علم کی پیاس ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں گرو ششیہ کی روایت گروکل دور سے ہے۔ یہاں تعلیم و تربیت دونوں تھے۔ گرو کا مطلب روشنی ہے۔ انہوں نے دل پذیر اشعار کے ذریعہ تعلیم کی روشنی کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی میں اخلاق پر مبنی تعلیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ اگر بس میں لیڈیز سیٹ پر لڑکی بیٹھی ہو اور کوئی بزرگ آجائے تو وہ اٹھ کر سیٹ دیدیتی ہے۔ یہاں قانون ہٹ جاتا ہے اخلاق ابھر کرآتے ہیں۔ انہوں نے مولانا رومی کی حکایت پیش کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو علم اس طرح حاصل کرنا چاہیے کہ اس سے لطف اندوز بھی ہوں۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و ڈین اسکول برائے تعلیم و تربیت اور کنوینر پروگرام نے عنوان کے متعلق کہا کہ آج کی دنیا میں مادی وسائل کی کمی نہیں ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی نے ایسی سہولیات فراہم کی ہیں جو پہلے بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں تھیں۔ لیکن مساوی تقسیم ابھی بھی نہیں ہو پا رہی ہے۔ معاشرے میں اچھے شہری سب سے بڑا اثاثہ ہوتے ہیں۔ لیکن آئیڈیل انسان کا حصول مشکل ہے۔ حالانکہ انسان میں اعلیٰ صلاحیتیں ہوتی ہیں لیکن انہیں سجانے اور سنوارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گلوبل مارکٹ میں ہمارے فارغین کی وہ قبولیت نہیں ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہاں انفراسٹرکچر کی کمی نہیں ، اساتذہ بھی بہترین ہیں لیکن کمی کی تلاش کرنے پر نظر آتا ہے کہ ہمارے اساتذہ رول ماڈل نہیں بن پارہے ہیں۔ اس لیے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کریں کہ وہ ایک بہتر ٹیچر ہیں یا نہیں اور اپنے آپ کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ پروفیسر محمد مشاہد، صدر شعبہ تعلیم و تربیت نے تعارفی تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ ڈاکٹر جرار احمد، اسسٹنٹ پروفیسر نے اس موقع پر اردو یونیورسٹی کے ریٹائرڈ اور مرحوم اساتذہ کو تہنیت اور خراج پیش کیا۔ محترمہ مومن سمیہ نے مہمان کا تعارف پیش کیا۔ محترمہ ترانہ یزدانی نے یومِ اساتذہ پر نظم پیش کی۔ ڈاکٹر اشونی، اسوسی ایٹ پروفیسر نے شکریہ ادا کیا۔ جناب اشرف نواز، اسسٹنٹ پروفیسر نے نظامت کی۔ جناب غفران برکاتی، اسسٹنٹ پروفیسر کی قرا ¿ت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ جناب رضوان احمد، ڈائرکٹر کی نگرانی میں آئی ایم سی ٹیم نے یوٹیوب چیانل اس پروگرام کو راست نشر کیا۔