اردو یونیورسٹی میں سرسید کے دو صدسالہ جشن کا انعقاد۔ اے کے خان اور دیگر کے خطاب
حیدرآباد، 22؍ اکتوبر(پریس نوٹ) عمومی طور پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کی نظر انجینئرنگ اور میڈیسن پر ہی ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ بھی کیریئر کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ بطور خاص مسلم طلبہ کی سول سروسیز میں حصہ داری بہت کم ہے۔ جبکہ یہاں ملک و قوم کی خدمت کا بہترین موقع دستیاب ہے۔ اس لیے طلبہ کو اس جانب توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ سرسید کو سچا خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ہماری نئی نسل تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ان خیالات کا اظہار جناب اے کے خان (آئی پی ایس ریٹائرڈ)، مشیر حکومت تلنگانہ نے کیا۔ وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں طلبہ کی جانب سے منعقدہ سرسید کی دو صدسالہ تقریب میں بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کر رہے تھے۔
جناب اے کے خان نے کہا کہ حکومت تلنگانہ اقلیتی بجٹ کا 70 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بطور خاص لڑکیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل احمد، پرو وائس چانسلر نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ہمیں حالات کے مطابق تبدیل ہونا چاہیے۔ جو تبدیلی کا ساتھ نہیں دیتے وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، جو تبدیلی کے بعد تبدیل ہوتے ہیں وہ خود کو مسابقت میں برقرار رکھ لیتے ہیں اور جبکہ تبدیلی کے موجب بننے والے اور تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہونے والے قیادت کے منصب پر قائم ہوتے ہیں۔ اس لیے طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور متعلقہ شعبہ میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہیں۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، شعبۂ تعلیم و تربیت نے کہا کہ مقصد کے ساتھ کام کرنا دانشمندی سے کام کرنا ہے۔ موجودہ حالات میں سرسید کے پیغام کی معنویت بہت زیادہ ہے۔ تربیت اور کردار سازی میں ان کی والدہ کا اہم رول رہا۔ اسی تربیت کی بدولت مشکل حالات میں بھی سرسید اپنے کردار اور مشن میں ثابت قدم رہے۔ سرسید نے اپنی محنت اور لگن کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک رول ماڈل بناکر پیش کیا۔ سرسید جدیدیت کے علم بردار تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کو جدید بنانے کے لیے تعلیم کو ذریعہ بنایا۔
style="font-family: " jameel="" noori="" nastaleeq";="" font-size:="" 18px;="" text-align:="" start;"="">ڈاکٹر محمد محب الحق، اسوسیئٹ پروفیسر، سیاسیات ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، نے کہا کہ ہندوستان میں جنگ آزادی کا آغاز 1757 میں پلاسی کی جنگ سے ہوتا ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں بھی مسلمانوں کا کافی حصہ تھا۔ اس لیے مسلمان انگریزوں کے نشانے پر آگئے۔ نظریات کی جنگ میں مسلمان پسپا ہو رہے تھے۔ سرسید نے ایسے حالات میں مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ ثقافت کا تحفظ اور مسلمانوں کی تعلیمی ترقی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایکٹ کا حصہ ہے۔ سرسید نے مذہبی و ملی رواداری کے لیے کوششیں کی۔ سر سید نے دینیات کا جو شعبہ قائم کیا اس میں شیعہ اور سنی طلبہ ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کی تعمیر کردہ مسجد میں یہ دونوں طبقے ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ دنیا میں واحد مثال ہے۔
جناب منظر جمال صدیقی، سابق پرنسپل منٹو سرکل اسکول، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کہا کہ اردو ایک زبان ہی نہیں ایک تہذیب بھی ہے۔ یہ تہذیب مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں زندہ ہے اور یہاں کے طلبہ اس کیمپس میں اس کی آبیاری کر رہے ہیں۔
سرسید نے نفرت کو ختم کرنے کے لیے نفرت کا سہارا نہیں لیا بلکہ غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے کتابیں لکھیں اور رائے عامہ ہموار کرنے کی کوش کی۔ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر انگریزوں کی غلط پالیسیوں کو 1857 کے انقلاب کی وجہ قرار دیا اور اس کی کاپیاں انگریزوں کے درمیان مفت تقسیم کیں۔ اس طرح انہوں نے انگریزوں کی مسلمانوں سے نفرت ختم کرنے کی کوشش کی۔ سرسید نے مسلمانوں میں سائنسی فکر اور رویہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ جانتے تھے کہ اس دنیا پر وہی حکمرانی کرے گا جو علم میں آگے ہوگا۔ اس کے لیے سرسید نے سائنسی تعلیم اور مزاج کے فروغ کے لیے عملی قدم اٹھایا۔ سائنٹفک سوسائٹی کے ارکان میں 107 مسلمان اور 82 ہندو تھے۔ یہ سرسید کی مذہبی رواداری اور تکثیریت پسند کی دلیل ہے۔ کسی عمارت یا تعلیمی ادارے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آج بھی قابل لحاظ طلبہ غیر مسلم ہیں۔
ڈاکٹر ایم اے سکندر، رجسٹرار بھی شہ نشین پر موجود تھے۔ جناب انیس احسن اعظمی، مشیر اعلیٰ، مرکز برائے مطالعاتِ ثقافت نے کارروائی چلائی۔ نہال احمد، بی ایڈ نے خیر مقدم کیا۔ طلبہ رومانہ صدیقہ چودھری، ایم اے انگریزی اور محمد عامر، ریسرچ اسکالر اسلامک اسٹڈیز نے بالترتیب انگریزی اور اردو میں خطاب کیا۔ عطا الرحمن نے شکریہ ادا کیا۔