سائنسی طرز اپنانا دستور ہند پر عمل آوری۔ مانو میں قومی اُردو سائنس کانگریس کا افتتاح
حیدرآباد، 25 فروری(پریس نوٹ) اردو کو ہمیشہ شاعری اور ادب کی زبان سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اگر سائنس کی ترسیل کی بات کریں تو یہ سب سے بہترین زبان ہے۔ ضرورت صرف لکھنے والوں کی ہے۔ مقبول سائنس لکھ کر ہم نہ صرف لوگوں کے ذوق کی تسکین کرسکتے ہیں بلکہ اس طرح دستورِ ہند کی شق 51 A (h) میں موجود عوام میں سائنسی طرز فکر پیدا کرنے کی جانب بھی قدم اٹھاتے ہیں اور لوگوں کو ایک بہترین زندگی بسر کرنے کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر نکول پاراشر، ڈائرکٹر، شعبہ ¿ سائنس ٹکنالوجی، وگیان پرسار ، نئی دہلی نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں قومی اردو سائنس کانگریس 2020 کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس سال کانگریس کا عنوان ”اُردو زبان میں سائنس کا فروغ“ ہے جسے مرکز برائے فروغ علوم (سی پی کے یو) اور اسکول برائے سائنسی علوم کے اشتراک سے منعقد کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر پاراشر نے کہا کہ آج بیروزگاری پر کافی بات ہوتی ہے جبکہ غیر انگریزی زبانوں میں سائنس پر لکھے گئے مواد کی ایڈیٹنگ کے لیے بہت سارے سائنس کمیونکیٹرس کی ضرورت ہے۔ اگر لوگ سائنس اور اردو زبان دونوں میں مہارت حاصل کرلیں تو وہ اس شعبہ میں کام کرسکتے ہیں اور اس میں 20 تا 25 ہزار نوکریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔انہوں نے اردو شاعری کو ماہرین کا کام قرار دیا اور کہا کہ اگر یہ ماہرین شاعری جیسا اختراعی کام کرسکتے ہیں تو وہ یقینی طور پر سائنس کو سمجھ سکتے ہیں۔ عمومی طور پر وہ بلاوجہ خوف ہی کے باعث سائنس سے دور ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وگیان پرسار میں بھاشا وگیان کے تحت مختلف زبانوں میں کام ہو رہا ہے لیکن سب سے اچھا کام اردو میں ہو رہا ہے۔ انہوں نے سلسلہ میں ڈاکٹر عرفانہ بیگم کا ذکر کیا جن کی مسلسل محنت سے وگیان پر سار کا اردو نیوز لیٹر ”تجسس“ مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ اس کی شروعات تراجم سے ہوئی تھی لیکن آج اس میں مکمل طور پر اردو مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر کی کتاب ”زندگی کی کہانی پتھروں کی زبانی“ جسے وگیان پرسار نے شائع کیا کی رسم اجراءکی گئی۔ اس کے علاوہ
یونیورسٹی کے نظامت برائے ترجمہ و اشاعت کے زیر اہتمام شائع ہونے والی اردو کتابوں میں پروفیسر ظفر احسن کی ”توضیحی فرہنگ ریاضی“، ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی کی ”عملی کام برائے حشریات“ اور ڈاکٹررفیع الدین ناصر (اورنگ آباد) کی کتاب ”پلانٹ اناٹامی اینڈ ایمبریالوجی“ کا بھی رسم اجرا عمل میں آیا۔
ڈاکٹر شیام سندر، ماہر امراض چشم ، حیدرآباد نے کہا کہ ان کی مادری زبان اردو ہے۔ انہوں نے اردو کو زندہ زبان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمیشہ رہے گی۔ یہ ایک مشترکہ تہذیب کی زبان ہے۔ انہوں نے اردو کو مذہب سے جوڑنے کو نامناسب قرار دیا۔
پروفیسر ظفر احسن، شعبہ ریاضی نے صدارتی خطاب میں مقبول سائنس تحریر کی اہمیت پرزور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ کہا جائے وقتی ہوتا جب کہ جو لکھا جائے وہ لمبے عرصے تک لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے قلم کے ذریعہ علم سیکھنے کا حکم دیا ہے۔
پروفیسر ایوب خان، پرو وائس چانسلر نے خیر مقدمی خطاب میں سائنس کانگریس کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور مہمانوں کا تعارف کروایا۔
پہلا سیشن”اردو میں سائنس کا فروغ اور وگیان پرسار“ میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے گہرے مشاہدے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے پیشرو مقررین کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے کس طرح زندگی کو مختلف انداز میں گہرا مشاہدہ کیا اور اپنے تجربات کی روشنی میں انہیں آسان بناکر پیش کردیا۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار انچارج نے افتتاحی کلمات میں اردو اور سائنس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر کی کاوشوں کی ستائش کی جنہوں نے پہلے ماہنامہ سائنس جاری کیا او رمسلسل 27 سال سے وہ پر چہ جاری ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر اسلم پرویز، سائنس کانگریس کے ذریعہ اردو عوام میں سائنسی طرز کے تئیں شعور بیدار کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرو وائس چانسلر پروفیسر ایوب خان کی تدریس اور انتظامی صلاحیتوں کی بھی ستائش کی۔
ڈاکٹر عابد معز، کنوینر کانگریس و کنسلٹنٹ اردو مرکز برائے فروغ علوم نے افتتاحی سیشن میں شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر ثمینہ کوثر، اسسٹنٹ پروفیسر عربی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ جناب اخلاق الرحمن کی قرا ¿ت کلام پاک و ترجمہ سے پروگرام کا آغاز ہوا۔