: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
: سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
بڑا مہربان نہایت رحم والا
انصاف کے دن کا حاکم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے تک قبول فرماتا ہیں (چنانچہ بندے کو مایوس نہ ہونا چاہئے)۔ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ ترمذی شریف)
حیدرآباد، 27 اکتوبر (پریس نوٹ):معروف ادیبہ رضیہ سجاد ظہیر کے صد سالہ تقریبات کے موقع پر ایک روزہ قومی سمینار کا انعقاد بعنوان 'رضیہ سجاد ظہیر: فکر و فن' زیر اہتمام شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بہ اشتراک راجستھان اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ عمل میں آیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز ' وائس چانسلرنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رضیہ سجاد ظہیر اردو فکشن کی ایک معتبر آواز ہیں۔اپنے عظیم ادیبوں اور شاعروں کو یاد کرنا ایک قومی فریضہ ہے۔ اس طرح کے پروگراموں سے نئی نسل عہدِ قدیم کے ادیبوں ،شاعروں اور فنکاروں سے متعارف ہوتی ہے اور مستقبل میں ادب کی تخلیقیت کے حوالے سے نئے نشانات مقرر کرنے کا موقع بھی فراہم ہوتا ہے۔ رضیہ سجاد ظہیر ایک نمائندہ قلم کار خاتون تھیں۔ انھوں نے عالمی ادب کی کئی معروف ہستیوں کے فن پاروں کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ وہ ایک عمدہ ناول نگار اور ایک اچھی افسانہ نگار تھیں۔ سمینار ڈائرکٹر پروفیسر فاروق بخشی نے خطبہ' استقبالیہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ نقادوں کی چشم پوشی کی وجہ سے ایک عظیم ادیبہ تاریخ کے اوراق میں گم ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سمینار رضیہ سجاد ظہیر شناسی کے سفر کا سنگِ میل ثابت ہوگا۔ مہمانِ خصوصی محترمہ نسیمہ تراب الحسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کے ادبی منظر نامے پر جبکہ رضیہ سجاد ظہیر کا عکس دُھندلا ہوتا جارہا ہے' ان کی ادبی کاوشوں کو یادکرنے اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ ایک بہترین اقدام ہے۔ مہمانِ اعزازی پروفیسر بیگ احساس نے کہاکہ رضیہ سجاد ظہیر نے اس دور میں لکھنا شروع کیا جب بہت کم خواتین اس میدان میں سرگرم عمل تھیں۔وہ ابتدا میں رضیہ دلشاد کے نام سے لکھتی تھیں۔ انھوں نے پرائیویٹ طور پر گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کی اور ہر امتحان میں اول درجے میں کامیابی حاصل کی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سمینار کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف رضیہ سجاد ظہیر کا تعلق حیدرآباد سے تھا وہیں ان کا بہت گہرا رشتہ راجستھان سے بھی تھا۔ اپنا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ترقی پسند نقاد پروفسیر علی احمد فاطمی نے رضیہ سجاد ظہیرکے ادبی کارناموں پر مفصل
گفتگو کی اور ان کی تحریروں میں موجود حقیقی رومانویت اور ان کی ادبی کاوشوں کا بھرپور جائزہ پیش کیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے کی اور ڈاکٹر شمس الہدیٰ دریا بادی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سمینار میں دو اجلاس ہوئے ۔ پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر فاطمہ پروین نے کی۔ اس اجلاس میں تین پرچے پڑھے گئے ۔ ڈاکٹر مسرت جہاں نے رضیہ سجاد ظہیر کا ناول 'اللہ میگھ دے' کی تہذیبی و عصری معنویت، ڈاکٹر ند ا معید نے 'زندگی کانٹے،، اور ڈاکٹر بی بی رضا خاتون نے 'رضیہ سجاد ظہیر بحیثیت خاکہ نگار،، کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر علی احمد فاطمی نے کی۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر محمد کاشف (حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی) نے رضیہ سجاد ظہیر کی افسانہ نگاری، شعبہ191 انگریزی ، مانو، کی اساتذہ پروفیسر شگفتہ شاہین نے Razia Sajjad Zaheer's Short Story Collection "Allah De Banda Le": A Minimalist Masterpiece کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ آخر میں معروف افسانہ نگار محترمہ قمر جمالی نے 'زرد گلاب کے تناظر میں رضیہ سجاد ظہیر کا فکری رجحان اور حیدرآبادی خواتین افسانہ نگاروں پر اس کا اثر،، کے عنوان سے اپنا تحقیقی مضمون پیش کیا۔ دونوں اجلاسوں کی نظامت بالترتیب شعبہ' اردو کے ریسرچ اسکالرزمحمد امان اے کے اور محمد جابر حمزہ نے کی۔ سمینار کے اختتامی اجلاس کی صدارت برصغیر کے ممتاز طنز و مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین نے کی۔ اس موقع پر انھوں نے رضیہ سجاد ظہیر پر تحریر کیا ہوا خاکہ بھی پیش کیا، جسے سامعین نے بڑے پر لطف انداز میں سنا۔ سمینار میں دیگر شعبوں کے اساتذہ ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی، پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، پروفیسر ظفر الدین ، ڈاکٹر عابد معز، ڈاکٹر ظفر گلزار، ڈاکٹر کہکشاں لطیف، پروفیسر نجم الحسن کے علاوہ ریٹائرڈ آئی اے ایس جناب نجم الحسن اور دیگریونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات نے بھی بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ اس سمینار کو کامیاب بنانے میں جن طلبا و طالبات نے محنت کی ان میں محمد جابرحمزہ، محمد امان اے کے، محمد رضوان انصاری، محمد اکرم ، محمد صالح انصاری ، محمد عارف، دانش کمال شامل ہیں۔ سمینار کا آغاز بی اے سال اول کے طالبِ علم محمد سلمان کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔