: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
: سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
بڑا مہربان نہایت رحم والا
انصاف کے دن کا حاکم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے تک قبول فرماتا ہیں (چنانچہ بندے کو مایوس نہ ہونا چاہئے)۔ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ ترمذی شریف)
اردو یونیورسٹی میں ویبنار۔ پروفیسر موہن کانت گوتم ، پروفیسر رحمت اللہ و دیگر کے خطاب
حیدرآباد، 2 اکتوبر (پریس نوٹ) گاندھی جی کے نظریات میں جنوبی آفریقہ میں نسلی امتیاز کے باعث گاڑی سے اتاردیئے جانے کے واقعہ نے کافی تبدیلی لائی۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں ہندوستانی مزدوروں کے ساتھ غلاموں کا برتاﺅ روا رکھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستانیوں پر ان کی آمدنی سے زیادہ ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔ اس سے گاندھی جی بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کے خلاف خطوط لکھے اور جدو جہد کا آغاز کیا۔ اس کے لیے انہوں نے وہاں عدم تشدد، ستیہ گرہ اور سماجی بہبود کے ذریعہ لوگوں کا تعاون حاصل کیا۔ انہی افکار کو لے کر انہوں نے ہندوستان میں تحریک آزادی میں حصہ لیا۔
ان خیالات کا اظہار پروفیسر موہن کانت گوتم ، انٹرنیشنل سائنٹفک کمیشن ، یونیسکو ، نیدرلینڈ نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اسکول برائے تعلیم و تربیت اور این ایس ایس سیل کے زیر اہتمام کل شام منعقدہ ایک قومی ویبنار ”عصر حاضر میں گاندھی جی“ میں آن لائن خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔ جبکہ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و ڈین اسکول برائے تعلیم و تربیت نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر گوتم نے کہا کہ ہندوستان میں گاندھی جی نے ایک سال اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی اور مولانا آزاد نے اس سلسلہ میں ان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے اسلام پر کتاب بھی لکھی۔ گاندھی جی او رمولانا آزاد نے ملک کی آزادی کے لیے جدو جہد میں مشترکہ طور پرحصہ لیا۔
پروفیسر گوتم نے کہا کہ ایجوکیشن پالیسی 2020 کے متعلق کہا کہ نئے نصاب ہونے چاہیے۔ بچوں کو بتانا چاہیے کہ کس طرح ہندوستان آزاد ہوا اور کون لوگ تھے جنہوں نے قربانیاں دیں۔ ہندوستان میں غربت کے خاتمہ کے لیے خاص کر بزرگ افراد کو پنشن دینے کی بات کی اور میڈیکل انشورنس کی بھی وکالت کی۔
این ای پی 2020 پر اظہار خیال کرتے ہوئے ، پروفیسر گوتم نے کہا کہ مہاتما گاندھی کے خوابوں کی اس نئی پالیسی کے ذریعے تکمیل ہوسکتی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان ایک عالمی تعلیمی مرکز بن
جائے۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ گاندھی جی آزادی اور عدم تشدد کے مشعل بردار تھے۔ انہوں نے تحریک آزادی کا آغاز کیا اور عدم تشدد کے ذریعہ برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کی۔ گاندھی جی بھائی چارہ اور مساوات کے حامی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ امتیازی سلوک کی مخالفت کی۔ ان کی کاوشوں سے ہندوستان سے بہت سارے توہمات اور غلط روایات کا خاتمہ ہوگیا۔ انسانیت ان کا مذہب تھا۔ دنیا ہمیشہ انہیں امن اور مساوات کے ستارے کے طور پر یاد رکھے گی۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود ، رجسٹرار انچارج و ڈین ، اسکول آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ نے مہاتما گاندھی کے تعلیمی نظریات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ فلسفیانہ زندگی کو سمجھے بغیر فلسفہ تعلیم کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ ان فلسفیانہ نظریات کے ساتھ گاندھی جی ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی ابھرے۔ جن خیالات کو انہوں نے تقریباً 100 یا 150 سال پہلے پیش کیا تھا وہ نئی تعلیم کی پالیسی 2020 کا حصہ ہیں۔
قبل ازیں ، ویبنار کوآرڈینیٹر پروفیسر محمد مشاہد ، صدر شعبہ ¿ تعلیم و تربیت نے خیرمقدم خطاب کیا اور پروگرام کے مقاصد پیش کیے۔ ڈاکٹر اشوانی ، ویبنار کوآرڈینیٹر نے مہمان مقررکو متعارف کروایا اور ڈاکٹر وقارالنسا، اسوسی ایٹ پروفیسر نے شکریہ ادا کیا۔ جناب اشرف نواز،اسسٹنٹ پروفیسر نے کارروائی چلائی۔ ڈاکٹر جرار احمد کی قرات کلام پاک سے ویبنار کا آغاز ہوا۔
پروفیسر محمد فریاد ، کوآرڈینیٹر ، این ایس ایس سیل اس سمینار کے کنوینر تھے۔ جناب رضوان احمد، ڈائرکٹر کی نگرانی میں آئی ایم سی ٹیم یوٹیوب چینل اس راست ویب کاسٹ کیا ہے۔ واضح رہے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں 23 ستمبر سے گاندھی جی کی 150 ویں یوم پیدائش کے سلسلہ میں فلم فیسٹول بشمول مختلف پروگرام منعقد کئے گئے۔ ”عصر حاضر میں مہاتما گاندھی“ متعلق ایک پینل مباحثہ یکم اکتوبر 2020 کو منعقد ہوا تھا جو یو ٹیوب کے لنک https://youtu.be/FhvLIdvWMg0.پر دستیاب ہے۔