نئی دہلی، 4مارچ (یو این آئی) مشہور افسانہ نگار غزالہ قمر اعجاز کے افسانوی مجموعہ ’مجھے بھی‘ کا اجرا کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے پروفسر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب خواتین کی تخلیقا ت کم منظر عام پر آتی تھیں اور انھیں اس راہ میں دشواریاں درپیش تھیں، مگر اب عورتیں کسی بھی میدان اور کسی بھی شعبے میں مردوں سے کمتر اور پیچھے نہیں ہیں انھوں نے کہا کہ آج نسائی اور تانیثی تحریک کے زیر اثر بہت سی تخلیقات شائع ہورہی ہیں،جن میں عام سماجی معاملات کے علاوہ خالص خواتین سے متعلق موضوعات کا بھی احاطہ کیا جارہا ہے۔ شیخ عقیل نے کہا کہ غزالہ قمر اعجاز کے افسانے بہت عمدہ ہیں اور انھوں نے تمام سماجی پہلوؤں کو اپنی تخلیقات میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، فنی اعتبار سے بھی انھوں نے افسانے کے تمام لوازمات و شعریات کو ملحوظ رکھا ہے، ان کی زبان بھی رواں اور سادہ ہے۔
معروف ادیب و ناقد حقانی القاسمی نے کہا کہ غزالہ قمر نئے عہد کی تخلیق کار ہیں اس لئے انھیں نئے سماجی و ادبی تقاضوں کا ادراک ہے اور ان کا اسلوب بیا ن بھی دلکش ہے۔
ان کے افسانوں میں سماجی نفسیات کا زاویہ بہت اہم ہے، انھوں نے فرد اور سماج کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کا ہے اور اسی کا اظہار اپنی تخلیقات کیا ہے۔ انھوں نے غزالہ قمر کے افسانوں کی لسانی و اسلوبی خوبیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے بوریت اور اکتاہٹ کے بجائے ارتعاش کا احساس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری نے کہا کہ غزالہ تانیثیت کی ایک معتبر آواز کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مسائل اور درد کو بیان کیا ہے۔ انھوں نے غزالہ کے متعدد افسانوں کے کرداروں کی روشنی میں موجودہ سماجی معاملات و مشکلات پر بھی روشنی ڈالی۔
معروف افسانہ نگار اور نسائی ادبی تنظیم ’بنات‘ کی سربراہ ڈاکٹر نگار عظیم نے کہا کہ غزالہ بے حد حساس خاتون ہیں اور اس کا اثر ان کی کہانیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب خاتون تخلیق کاروں کے موضوعات، کردار اور کیونس و احساس بدل رہے ہیں، جس کی نمائندگی غزالہ قمر کے افسانے کرتے ہیں۔ خواتین کے درد کو انھوں نے کما حقہ محسوس کیا اور اس کی بھرپور نمائندگی کی ہے۔