لکھنؤ 30،نومبر(یو این آئی) چہار بیت اردو کی عوامی تہذیبی زندگی کی ایک نمائندہ صنف ہے جس میں ہماری تہذیب کا خوب صورت اظہار ہے یہ ایک مقبول صنف تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب معدوم ہوتی جارہی ہے ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و ادیب اور شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر پروفیسر شہپر رسول نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں توسیعی خطبے کے دوران کیا پروفیسر شہپر رسول نے چہار بیت کی صنفی حیثیت اور عوامی مقبولیت پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے ابتدائی خدو خال کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ صنف افغان سرحدی پٹھانوں کے یہاں بہت مقبول تھی اور وہ لوگ اسے چہار بیتیہ کہتے تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ جہاں جہاں ہجرت کرکے یہ
لوگ آباد ہوتے گئے وہاں وہاں یہ صنف رواج پکڑتی گئی۔جس میں رام پور کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔اس کے علاوہ بھوپال،ٹونک میں بھی چہار بیت کی دیرینہ روایت ہے،جہاں اس کی محفلیں بڑی دھوم دھام سے منعقد ہوتی ہیں۔انھوں نے پارٹیوں اور چہار بیت کے ٹورنامنٹ (مقابلوں)کا بھی ذکر کیا اور اس کے اشعار پڑھ کر سنائے بھی۔
پروفیسر شہپر رسول نے اس موقع پر ایک فرانسیسی محقق کی کتاب کے حوالے سے کہا کہ اس صنف کو سرحدی پٹھانوں میں عوامی گیت کی حیثیت حاصل رہی،جس کوزیادہ تر ہندوستانیوں نے رواج دیا۔البتہ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں بہت سے تہذیبی سلسلے کمزور ہوئے ہیں یہ صنف بھی اس کا شکار ہوئی ہے البتہ ٹکنالوجی کے اس عہد میں بعض نئے حوالوں سے اس کے احیا کی کوشش جاری ہے۔