ذرائع:
سرسا:ہریانہ کے سرسا میں واقع چودھری دیوی لال یونیورسٹی کی تقریباً 500 طالبات نے ایک پروفیسر پر جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ طالبات نے اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی اور چیف منسٹر منوہر لال کھٹر کومکتوب لکھا ہے۔ انہوں نے پروفیسر کی معطلی اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی قیادت میں تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ خط کی کاپیاں وائس چانسلر اجمیر سنگھ ملک، گورنر بنڈارو دتاتریہ، ریاستی وزیر داخلہ انل وج اور خواتین کے قومی کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما سمیت دیگر کو بھی بھیجی گئی ہیں۔
خط میں پروفیسر پر "گندی اور فحش حرکات" کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس پر لڑکیوں کو اپنے دفتر بلانے، باتھ روم لے جانے، ان کے پرائیویٹ پارٹس کو چھونے اور فحش حرکات کرنے کا الزام ہے۔ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے احتجاج کیا تو انھیں 'بہت برے' نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سلسلہ کئی ماہ سے
جاری ہے۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار راجیش کمار بنسل نے گمنام خط موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔
طالبات کے اس الزام کے بعد اب ہریانہ کی منوہر لال کھٹر حکومت اپوزیشن کے نشانے پر آگئی ہے۔ کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی دیپندر سنگھ ہڈا نے 'ایکس' پوسٹ کرکے حکومت کونشانہ بنایا۔ انہوں نے لکھا کہ سرسا کی چودھری دیوی لال یونیورسٹی کی 500 طالبات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور استحصال کے سنگین الزامات کی خبریں تشویشناک ہیں۔ کانگریس لیڈر دیپندر سنگھ ہڈا نے لکھا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ طالبات کو انصاف کے لئے گورنر سے لے کر وزیر اعظم کو خط لکھنا پڑ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خواتین کے استحصال کے الزام میں وزیر سندیپ سنگھ کو بچانے جیسے معاملات میں ریاست کی بی جے پی-جے جے پی حکومت کے ماضی کے ریکارڈ کی وجہ سے طالبات کو اس حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ طالبات کے الزامات کی اعلیٰ سطحی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔